چپل چور
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی گاوں میں ایک چپل چور رہتا تھا وہ مسجد سے جوتوں کو چرایا کرتا تھا کافی برس ایسا ہی چلتا رہا ایک دن ایسا آیا کہ لوگ اس شخص سے تنگ آچکے تھے ایک دن اس کا والد دکان سے نئی چپل خرید لایا وہ مسجد میں گیا اسی دوران اسکا بیٹا چپل چور مسجد مین آیا اور سب سے نیا جوتا دیکھ کر اپنے باپ کا جوتا چرا لے گیا۔ اس کا والد بہت پریشان تھا وہ گھر آیا اور اس نےدیکھا کہ اس کی نئی چپل اسکا بیٹا پہنے ہوئے تھا والد نے اس سے پوچھا کہ یہ چپل کس کی ہے تو بیٹے نے کہا ، میرے فلاں دوست کی جوتوں کی دکان ہے اس نے مجھے یہ چپل تحفے کے طور پر دی ہے والد سمجھ گیا کہ یہی لوگوں کی چپل چوری کرتا ہے اور پھر اس کے والد نے اسے رنگ ہاتھوں پکڑنے کا منصوبہ بنا یا۔ اس نے اپنے بیٹے کی نگرانی شروع کر دی۔ کافی دیر بعد اس نے دیکھا کہ اس کا بیٹا مسجد جا رہا ہے تو بوڑھا باپ بھی پیچھے چل دیا اور مسجد کے ایک کونے میں جا چھپا ۔ جیسے ہی اس کے بیٹے نے جوتا چرانا شروع کیا تو باپ نے شور مچا دیا "دیکھو لوگو چپل چور" چپل چور! جیسے ہی لوگوں نے اس کی آواز سنی تو وہ سب چور کی طرف لپکے۔ یوں چپل چور کو اس کے باپ کے سامنے خوب پیٹا۔۔۔ اس کے بعد ہر روز مسجد میں ایک نیا جوتا پڑا ہوتا ہے اور کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ کوئی جوتا چرا سکے۔
اس کہانی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ کوئی اگر برائی کررہا ہے چاہے وہ آپکا کتنا ہی قریبی ہے اگر آپ اسے روکیں گے نہیں تو آپ بھی اس کے گناہ میں شامل ہوں گے۔ یوں آپ کا فرض بنتا ہے کہ معاشرے میں ایسا کچھ بھی دیکھیں تو اس کی اصلاح کریں۔ اور اگر ممکن ہو تو بڑے اجتماع میں اسے سمجھانے کی کوشش کریں اس طرح سے یہ معاشرہ ترقی کرے گا۔
(ثمامہ#)